اگر آپ والدین ہیں تو ٹیچر… تو آپ کا واسطہ روزانہ دن کے کئی گھنٹے بچوں سے پڑتا ہے۔ آپ کو ان بچوں کی نفسیات سے واقفیت ہونا بہت ضروری ہے۔ آج کے دور میں بچوں میں جو نفسیاتی اورجذباتی مسائل بہت بڑھ گئے ہیں، ان میں سے ایک تنہائ ہے۔
تنہائ… یوں تو سبھی ہفتے مہینے میں کبھی کبھار خود کو تنہا محسوس کرتے ہیں اور اس کی کئی وجوہ ہوسکتی ہیں۔ لیکن، اگر تنہائ کا یہ احساس مستقل ہوجائے یا زیادہ طویل عرصہ جاری رہے تو سمجھ لیجیے کہ یہ ذہنی بیماری ہے۔
تنہائ کے احساس کا نقصان:
جو بچے اور بالغ بھی، خود کو تنہا محسوس کرتے اور تنہا رکھتے ہیں، وہ اندر سے مغموم اور مایوس رہتے ہیں۔ ایسے افراد میں خود اعتمادی بھی بہت کم ہوتی ہے اور وہ خود آگے بڑھ کر کوئ کام کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔ ایسے افراد کو مجلس اور محفل میں پسند نہیں کیا جاتا کیوں کہ وہ اپنے آپ ہی میں گم رہتے ہیں۔
تنہائ کا احساس کیوں؟
بچوں میں تنہائ کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہےکہ وہ گھر میں اکلوتا ہے اور ماں باپ کام پر چلے جاتے ہیں۔ بچہ اسکول سے آنے کے بعد سارا دن گھر پر تنہا رہتا ہے یا اگر کوئ خادمہ ہے تو وہ بچے پر توجہ نہیں دیتی (اور وہ بھلا دے بھی کیوں؟ وہ اس خادمہ کا بچہ تو نہیں ہے ناں)۔ اگر ماں گھر پر ہی رہتی ہے تو کئی مائیں گھر پر ہونے کے باوجود اپنے بچے پر توجہ نہیں دیتیں۔ وہ اس غلط فہمی میں رہتی ہیں کہ بچے کے کھانے اور پینے کا انتظام وقت پر کردینا کافی ہے۔ حالانکہ جذباتی ضروریات اپنی جگہ اہم ہیں اور جب بچے کی جذباتی ضروریات پوری نہیں ہوتیں یعنی اسے اپنی والدین خاص طور پر ماں کی توجہ نہیں ملتی تو وہ تنہائ کے احساس کا شکار ہوجاتا ہے۔
جن والدین کے بچے انھیں معیاری تعلیم کیلئے اسکول کے زمانے ہی میں ہوسٹل بھیج دیتے ہیں، وہ بچے بھی تنہائ کے شکار ہوجاتے ہیں بلکہ ان میں یہ شرح بہت زیادہ ہے۔ ایسے بچے تنہائ کے علاوہ دیگر نفسیاتی مسائل کا سامنا بھی کرتے ہیں۔والدین کو چاہیے کہ وہ معیاری تعلیم کے خواب کو پورا کرنے کیلئے اپنے بچے کی شخصیت اور زندگی سے نہ کھیلیں
بعض اسکولوں کا ماحول بھی اس انداز سے تشکیل پاتا ہے کہ وہاں پڑھنے والے بچے اپنے ہم جماعتوں کو اپنا دوست بنانے اور اُن سے کھیل کو دکرنے کی بجائے اپنی نشست پر چپ چاپ بیٹھے رہتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ان جابرانہ ماحول کو ڈسپلن کا نام دیا جاتا ہے۔ اس ماحول میں پروان چڑھنے والے بچے سخت مزاج اور انسان بیزار ہوجاتے ہیں، کیوں کہ جب ان کے دوست بنانے کا ہنر سیکھنے دن تھے، انھیں اس کا موقع ہی نہیں دیا گیا۔
بچے تب بھی تنہائ کا شکار ہوسکتےہیں کہ جب انھیں کسی وجہ سے ایک شہر یا ملک چھوڑ کر دوسرے شہر یا ملک جانا پڑجائے۔ عموماً والد کا تبادلہ ایک شہر سے دوسرے شہر ہوجاتا ہے یا پھر پوری فیملی ہی کسی دوسرے ملک منتقل ہوجاتی ہے۔ ایسے میں بچے کیلئے نئی جگہ، نیا ماحول اور نئے لوگ ناقابل ہضم ہوتے ہیں۔ اس کے پرانے یار بیلی اس سے چھوٹ جاتے ہیں جو اس کیلئے اس عمر کا سب سے قیمتی اثاثہ ہوتا ہے۔ نئے علاقے میں منتقلی کے بعد وہاں دوست بنانے اور جان پہچان کرنے میں بہ ہر کیف وقت تو لگتا ہے۔ بچہ اس دوران تنہائ کا شکار ہوسکتا ہے۔
جو والدین اپنے بچوں کی کڑی نگرانی کرتے ہیں کہ کہیں وہ غلط صحبت میں نہ پڑجائے، ایسےوالدین اپنے بچوں کے ساتھ بڑا ظلم کرتے ہیں۔ بچے چھوٹی عمر میں بہت کچھ کھیلنا کودنا اور دوست بنانا چاہتے ہیں۔ لیکن والدین کی قدغن اور بات بات پر روک ٹوک انھیں ان کی یہ فطری ضرورت پوری نہیں کرنے دیتی۔ ایک وقت آتا ہے کہ بچہ اپنی دنیا میں مگن ہوجاتا ہے اور وہ اسکول، کالج، یونیورسٹی اور دفتر میں بھی دوسروں سے کٹ کر رہتا ہے۔
والدین کی علیحدگی یعنی طلاق یا خلع کی صورت میں بچہ ماںکے پاس رہے یا باپ کے پاس، ہر دو صورتوں میں اس کی نگرانی اور حفاظت عام حالات سے کہیں بڑھ کر کی جاتی ہے۔ بچہ اپنی اس نگرانی سے خود کو قید میں محسوس کرتا ہے اور نفسیاتی اثر یہ ہوتا ہے کہ وہ لوگوں سے کٹنا شروع کردیتا ہے۔
کیا کریں؟
* دوستی کرنا سیکھا جائے۔ اور اس کی ابتدا اپنے قریبی ہم جماعتوں، رشتے داروں اور محلے والوں سے کی جائے۔
* اپنے انسان بیزار مزاج میں تبدیلی لائیے۔ خود کو اپنے ارد گرد لوگوں سے ملنے پر اکسائیے۔
* روزانہ کوئ ایسا کام کیجیے ہ جس میں آپ کو باہر جانا پڑے۔ مثلاً صبح کی سیر، اپنے پالتو جانور کو گھمانا، کسی کلب کی ممبرشپ وغیرہ۔
* اپنے کزنز اور ہم جماعتوں کو روزانہ فون کیجیے۔ ایک دن میں ایک فون کریں گے تو ایک مہینے میں تیس دوستوں اور کزنز کو فون کرلیں گے۔
* نئے دوست بنائیے۔
* پرانے دوستوں کے ساتھ کسی تفریح کا پروگرام بنائیے۔ مثلاً ان کے ساتھ کسی جگہ کھانے جائیے یا کسی پارک میں چلے جائیے۔
* کوئ نیا شوق اختیار کیجیے اور اُس میں مہارت پیدا کیجیے۔ مثال کے طور پر، ہاکی، کرکٹ، شطرنج وغیرہ۔ جو لوگ پہلے سے یہ کھیل کھیل رہے ہیں، دیکھیے کہ وہ کیسے کھیلتے ہیں۔
* دوسروں کے احساسات پر غور کیجیے اور جائزہ لیجیے کہ آپ کا کوئ دوست یا ہم جماعت پریشان تو نہیں ہے۔ اگر ہے تو اس سے بات کیجیے۔
* اگر آپ کسی وجہ سے اسکول نہیں جا پارہے (مثلاً بخار ہے) تو والدہ یا والد سے کہہ کر اپنی ٹیچر بات کیجیے۔
Comments